غزل
اسکی کی یادوں کے حسیں خواب کا پیکر دےگا
پھر نیا زخم مجھے اب دل مضطر دےگا
برگ گل پر پڑی شبنم کو نہ کم تر جانو
زرد موسم کو یہی قطرہ ہرا کر دےگا
حوصلے جنکے پہاڑوں کی طرح ہوتے ہیں
ڈر انہیں کیسے بھلا کوئی سمندر دےگا
آہ !اس جام محبت کا نہ عالم پوچھو
دست ساقی سے مجھے آج جو ساغر دے گا
فن کبھی غیرکو ہرگز نہ دکھایا کرنا
ورنہ سینے میں کوئی زخم نیا کر دےگا
ہر طرف جوروجفا ظلم وستم ہے رضوی
پھر بھی منصف کوئی الزام مرے سر دےگا۔
صلاح الدین رضوی مظفر پور
اسکی کی یادوں کے حسیں خواب کا پیکر دےگا
پھر نیا زخم مجھے اب دل مضطر دےگا
برگ گل پر پڑی شبنم کو نہ کم تر جانو
زرد موسم کو یہی قطرہ ہرا کر دےگا
حوصلے جنکے پہاڑوں کی طرح ہوتے ہیں
ڈر انہیں کیسے بھلا کوئی سمندر دےگا
آہ !اس جام محبت کا نہ عالم پوچھو
دست ساقی سے مجھے آج جو ساغر دے گا
فن کبھی غیرکو ہرگز نہ دکھایا کرنا
ورنہ سینے میں کوئی زخم نیا کر دےگا
ہر طرف جوروجفا ظلم وستم ہے رضوی
پھر بھی منصف کوئی الزام مرے سر دےگا۔
صلاح الدین رضوی مظفر پور
No comments:
Post a Comment