Friday, April 17, 2020

غزل

اسکی کی یادوں کے حسیں خواب کا پیکر دےگا
پھر نیا زخم مجھے اب دل مضطر دےگا

برگ گل پر پڑی شبنم کو نہ کم تر جانو
زرد موسم کو یہی قطرہ ہرا کر دےگا

حوصلے جنکے پہاڑوں کی طرح ہوتے ہیں
ڈر انہیں کیسے بھلا کوئی سمندر دےگا

آہ !اس جام محبت کا نہ عالم پوچھو
دست ساقی سے مجھے آج جو ساغر دے گا

فن کبھی غیرکو ہرگز نہ دکھایا کرنا
ورنہ سینے میں کوئی زخم نیا کر دےگا



ہر طرف جوروجفا ظلم وستم ہے رضوی
پھر بھی منصف کوئی الزام مرے سر دےگا۔

صلاح الدین رضوی مظفر پور